Author:غلام علی ہمدانی مصحفی
Jump to navigation
Jump to search
غلام علی ہمدانی مصحفی (1751 - 1844) |
اردو شاعر |

غلام علی ہمدانی مصحفی
تصانیف[edit]
غزل[edit]
- آئے ہو تو یہ حجاب کیا ہے
- رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا
- جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا
- عقل گئی ہے سب کی کھوئی کیا یہ خلق دوانی ہے
- آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا
- خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا
- جب کہ بے پردہ تو ہوا ہوگا
- آنکھوں کو پھوڑ ڈالوں یا دل کو توڑ ڈالوں
- عاشق تو ملیں گے تجھے انساں نہ ملے گا
- لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے
- گرچہ اے دل عاشق شیدا ہے تو
- غم دل کا بیان چھوڑ گئے
- کبھی تو بیٹھوں ہوں جا اور کبھی اٹھ آتا ہوں
- اس قدر بھی تو مری جان نہ ترسایا کر
- اول تو ترے کوچے میں آنا نہیں ملتا
- وہ چاندنی رات اور وہ ملاقات کا عالم
- آہ ہم راز کون ہے اپنا
- اب مجھ کو گلے لگاؤ صاحب
- آنا ہے یوں محال تو اک شب بہ خواب آ
- آتا ہے کس انداز سے ٹک ناز تو دیکھو
- اس عشق و جنوں میں نہ گریبان کا ڈر ہے
- آہ دیکھی تھی میں جس گھر میں پری کی صورت
- ترا شوق دیدار پیدا ہوا ہے
- نہ پوچھ عشق کے صدمے اٹھائے ہیں کیا کیا
- کب صبا سوئے اسیران قفس آتی ہے
- پہلو میں رہ گیا یوں یہ دل تڑپ تڑپ کر
- اے عشق تیری اب کے وہ تاثیر کیا ہوئی
- آج پلکوں کو جاتے ہیں آنسو
- آنکھیں ہیں جوش اشک سے پنگھٹ
- ابھی اپنے مرتبۂ حسن سے میاں با خبر تو ہوا نہیں
- بلبلو باغباں کو کیوں چھیڑا
- لگتے ہیں نت جو خوباں شرمانے باؤلے ہیں
- وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو
- بیٹھے بیٹھے جو ہم اے یار ہنسے اور روئے
- جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے
- آتا ہے یہی جی میں فریاد کروں روؤں
- اے شب ہجر کہیں تیری سحر ہے کہ نہیں
- دل چرانا یہ کام ہے تیرا
- عاشق کہیں ہیں جن کو وہ بے ننگ لوگ ہیں
- کہہ گیا کچھ تو زیر لب کوئی
- دل کو یہ اضطرار کیسا ہے
- معشوقۂ گل نقاب میں ہے
- کچھ اپنی جو حرمت تجھے منظور ہو اے شیخ
- غزل کہنے کا کس کو ڈھب رہا ہے
- یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی
- رخ زلف میں بے نقاب دیکھا
- جب گھر سے وہ بعد ماہ نکلے
- پردہ اٹھا کے مہر کو رخ کی جھلک دکھا کہ یوں
- کھڑا نہ سن کے صدا میری ایک یار رہا
- اول تو یہ دھج اور یہ رفتار غضب ہے
- میرؔ کیا چیز ہے سوداؔ کیا ہے
- جلتا ہے جگر تو چشم نم ہے
- ہے ماہ کہ آفتاب کیا ہے
- ہم دل کو لیے بر سر بازار کھڑے ہیں
- ہمیں نت اسیر بلا چاہتا ہے
- ازبسکہ جی ہے تجھ بن بیزار زندگی سے
- دور سے مجھ کو نہ منہ اپنا دکھاؤ جاؤ
- از بس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو
- زلف اگر دل کو پھنسا رکھتی ہے
- جب تک کہ تری گالیاں کھانے کے نہیں ہم
- ترسا نہ مجھ کو کھینچ کے تلوار مار ڈال
- بحث اس کی میری وقت ملاقات بڑھ گئی
- ہم تو اس کوچے میں گھبرا کے چلے آتے ہیں
- دیکھ اس کو اک آہ ہم نے کر لی
- بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا
- چھریاں چلیں شب دل و جگر پر
- ہر روز ہمیں گھر سے صحرا کو نکل جانا
- آتش غم میں بس کہ جلتے ہیں
- اے غم زدہ ضبط کر کے چلنا
- یا تھی ہوس وصال دن رات
- بعد مردن کی بھی تدبیر کیے جاتا ہوں
- بات کو میری الگ ہو کے نہ شرماؤ سنو
- چلے لے کے سر پر گناہوں کی گٹھری
- ٹکڑا جہاں گرا جگر چاک چاک کا
- سدا فکر روزی ہے تا زندگی ہے
- دل خوش نہ ہوا زلف پریشاں سے نکل کر
- موج نکہت کی صبا دیکھ سواری تیار
- دریاے عاشقی میں جو تھے گھاٹ گھاٹ سانپ
- کیا کریں جا کے گلستاں میں ہم
- کبریائی کی ادا تجھ میں ہے
- حال دل بے قرار ہے اور
- بنایا ایک کافر کے تئیں اس دم میں دو کافر
- غم ترا دل میں مرے پھر آگ سلگانے لگا
- ہو چکا ناز منہ دکھائیے بس
- بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں
- جب نبی صاحب میں کوہ و دشت سے آئی بسنت
- تجھ سے گر وہ دلا نہیں ملتا
- گھر میں باشندے تو اک ناز میں مر جاتے ہیں
- نہ وہ وعدۂ سر راہ ہے نہ وہ دوستی نہ نباہ ہے
- باغ تھا اس میں آشیاں بھی تھا
- شعر کیا جس میں نوک جھوک نہ ہو
- کدھر جائیے اور کہاں بیٹھیے
- جی سے مجھے چاہ ہے کسی کی
- تختۂ آب چمن کیوں نہ نظر آوے سپاٹ
- اس مرگ کو کب نہیں میں سمجھا
- دوکان مے فروش پہ گر آئے محتسب
- آج خوں ہو کے ٹپک پڑنے کے نزدیک ہے دل
- بکتے ہیں شہر میں گل بے خار ہر طرف
- سو بار تم تو سامنے آ کر چلے گئے
- نخل لالے جا جب زمیں سے اٹھا
- جیتا رہوں کہ ہجر میں مر جاؤں کیا کروں
- پریشاں کیوں نہ ہو جاوے نظارا
- دلی ہوئی ہے ویراں سونے کھنڈر پڑے ہیں
- برق رخسار یار پھر چمکی
- بے لاگ ہیں ہم ہم کو رکاوٹ نہیں آتی
- اس نازنیں کی باتیں کیا پیاری پیاریاں ہیں
- کھیل جاتے ہیں جان پر عاشق
- یہ دل وہ شیشہ ہے جھمکے ہے وہ پری جس میں
- مسلخ عشق میں کھنچتی ہے خوش اقبال کی کھال
- شب میں واں جاؤں تو جاؤں کس طرح
- میاں صبر آزمائی ہو چکی بس
- اہل دل گر جہاں سے اٹھتا ہے
- ایسے ڈرے ہیں کس کی نگاہ غضب سے ہم
- کون اس باغ سے اے باد صبا جاتا ہے
- ادھر سے جھانکتے ہیں گہہ ادھر سے دیکھ لیتے ہیں
- شعر دولت ہے کہاں کی دولت
- نصیبوں سے کوئی گر مل گیا ہے
- اس بت کو نہیں ہے ڈر خدا سے
- سامنے آنکھوں کے ہر دم تری تمثال ہے آج
- ان آنکھوں سے آب کچھ نہ نکلا
- مجھ سے اک بات کیا کیجئے بس
- کام میں اپنے ظہور حق ہے آپ
- زخم ہے اور نمک فشانی ہے
- دل سینے میں بیتاب ہے دل دار کدھر ہے
- کل تو کھیلے تھا وہ گلی ڈنڈا
- پانو میں قیس کے زنجیر بھلی لگتی ہے
- کل پتنگ اس نے جو بازار سے منگوا بھیجا
- رکھیں ہیں جی میں مگر مجھ سے بد گمانی آپ
- کیا چمکے اب فقط مری نالے کی شاعری
- جو دم حقے کا دوں بولے کہ ”میں حقا نہیں پیتا”
- بند بھی آنکھوں کو ذری کیجیے
- وہ آرزو نہ رہی اور وہ مدعا نہ رہا
- اک حرف کن میں جس نے کون و مکاں بنایا
- تھا جو شعر راست سرو بوستان ریختہ
- تو دیکھے تو اک نظر بہت ہے
- وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر
- سینہ ہے پرزے پرزے جائے رفو نہیں یاں
- خواریاں بدنامیاں رسوائیاں
- اس گلشن پر خار سے مانند صبا بھاگ
- ہر چند کہ بات اپنی کب لطف سے خالی ہے
- تجھ بن تو کبھی گل کے تئیں بو نہ کروں میں
- در تلک آ کے ٹک آواز سنا جاؤ جی
- کبھو تک کے در کو کھڑے رہے کبھو آہ بھر کے چلے گئے
- زیر نقاب آب گوں ہائے رے ان کی جالیاں
- تم بھی آؤگے مرے گھر جو صنم کیا ہوگا
- مذہب کی میرے یار اگر جستجو کریں
- یارب آباد ہوویں گھر سب کے
- نے زخم خوں چکاں ہوں نہ حلق بریدہ ہوں
- میں پہروں گھر میں پڑا دل سے بات کرتا ہوں
- ہر چند کہ وہ جواں نہیں ہم
- زلفوں کا بکھرنا اک تو بلا، عارض کی جھلک پھر ویسی ہی
- جاتے جاتے راہ میں اس نے منہ سے اٹھایا جوں ہی پردا
- شب ہجراں تھی میں تھا اور تنہائی کا عالم تھا
- گر اور بھی مری تربت پہ یار ٹھہرے گا
- منہ میں جس کے تو شب وصل زباں دیتا ہے
- مدت سے ہوں میں سر خوش صہبائے شاعری
- بوئیے مزرع دل میں جو عنایات کے بیج
- سوتے ہیں ہم زمیں پر کیا خاک زندگی ہے
- دل میں ہے اس کے مدعی کا عشق
- مشتاق ہی دل برسوں اس غنچہ دہن کا تھا
- اس گوشۂ عزلت میں تنہائی ہے اور میں ہوں
- اس رشک مہ کی یاد دلاتی ہے چاندنی
- مکھ پھاٹ منہ پہ کھائیں گے تلوار ہو سو ہو
- غصے کو جانے دیجے نہ تیوری چڑھائیے
- یادگار گزشتگاں ہیں ہم
- سراسر خجلت و شرمندگی ہے
- بزم سرود خوباں میں گو مردنگیں شاہین بجیں
- ہے تمنائے سیر باغ کسے
- منہ چھپاؤ نہ تم نقاب میں جان
- فہمیدہ ہے جو تجھ کو تو فہمید سے نکل
- ہر چند امردوں میں ہے اک راہ کا مزا
- تماشے کی شکلیں عیاں ہو گئی ہیں
- وہ چہچہے نہ وہ تری آہنگ عندلیب
- ایک تو بیٹھے ہو دل کو مرے کھو اور سنو
- دم غنیمت ہے کہ وقت خوش دلی ملتا نہیں
- اس گلی میں جو ہم کو لائے قدم
- کیجیے ظلم سزا وار جفا ہم ہی ہیں
- کی آہ ہم نے لیکن اس نے ادھر نہ دیکھا
- وہی راتیں آئیں وہی زاریاں
- خوش طالعی میں شمس و قمر دونوں ایک ہیں
- ہر چند بہار و باغ ہے یہ
- نسیم صبح چمن سے ادھر نہیں آتی
- دلبر کی تمنائے بر دوش میں مر جائے
- کب لگ سکے جفا کو اس کی وفائے عالم
- پڑھ نہ اے ہم نشیں وصال کا شعر
- نرمیٔ بالش پر ہم کو نہیں بھاتی ہے
- سدھاری قوت دل تاب اور طاقت سے کہہ دیجو
- پس قافلہ جو غبار تھا کوئی اس میں ناقہ سوار تھا
- یک نالۂ عاشقانہ ہے یاں
- رو کے ان آنکھوں نے دریا کر دیا
- خریدار اپنا ہم کو جانتے ہو
- ہر چند کہ ہو مریض محتاط
- سخن میں کامرانی کر رہا ہوں
- لیکھے کی یاں بہی نہ زر و مال کی کتاب
- یار ہیں چیں بر جبیں سب مہرباں کوئی نہیں
- بس ہم ہیں شب اور کراہنا ہے
- میری سی تو نے گل سے نہ گر اے صبا کہی
- وہیں تھے شاخ گل پر گل جہاں جمع
- شب ہم کو جو اس کی دھن رہی ہے
- اس کے کوچے کی طرف تھا شب جو دنگا آگ کا
- رات کرتا تھا وہ اک مرغ گرفتار سے بحث
- جب سے صانع نے بنایا ہے جہاں کا بہروپ
- لیے آدم نے اپنے بیٹے پانچ
- ہم بھی ہیں ترے حسن کے حیران ادھر دیکھ
- پھر یہ کیسا ادھیڑ بن سا لگا
- چشم نے کی گوہر افشانی صریح
- رات کے رہنے کا نہ ڈر کیجیے
- نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہے
- گر ابر گھرا ہوا کھڑا ہے
- کھا لیتے ہیں غصے میں تلوار کٹاری کیا
- نہیں کرتی اثر فریاد میری
- تم بانکپن یہ اپنا دکھاتے ہو ہم کو کیا
- در تلک جانے کی ہے اس کے مناہی ہم کو
- محبت نے کیا کیا نہ آنیں نکالیں
- جلوہ گر اس کا سراپا ہے بدن آئنے میں
- کیوں کہ کہیے کہ ادا بندی ہے
- پٹرے دھرے ہیں سر پر دریا کے پاٹ والے
- جانے دے ٹک چمن میں مجھے اے صبا سرک
- یارب مری اس بت سے ملاقات کہیں ہو
- چکھی نہ جس نے کبھی لذت سنان نگاہ
- عمر پس ماندہ کچھ دلیل سی ہے
- کیا دخل کسی سے مرض عشق شفا ہو
- یوں چلتے ہیں لوگ راہ ظالم
- کہتی ہے نماز صبح کی بانگ
- کس راہ گیا لیلیٰ کا محمل نہیں معلوم
- شب شوق لے گیا تھا ہمیں اس کے گھر تلک
- اس نے کر وسمہ جو فندق پہ جمائی مہندی
- گر ہم سے نہ ہو وہ دل ستاں ایک
- شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی
- طور پر اپنے کسی دن بھی خور و خواب ہے یاں
- ترے منہ چھپاتے ہی پھر مجھے خبر اپنی کچھ نہ ذری رہی
- ہوں شیخ مصحفی کا میں حیران شاعری
- سیراب آب جو سے قدح اور قدح سے ہم
- اپنا رفیق و آشنا غیر خدا کوئی نہیں
- گر ہو طمنچہ بند وہ رشک فرنگیاں
- ناتوانی کے سبب یاں کس سے اٹھا جائے ہے
- طرح اولے کی جو خلقت میں ہم آبی ہوتے
- گریہ دل کو نہ سوے چشم بہاؤ
- تم گرم ملے ہم سے نہ سرما کے دنوں میں
- کبھی وفائیں کبھی بے وفائیاں دیکھیں
- کپڑے بدل کے آئے تھے آگ مجھے لگا گئے
- مخلوق ہوں یا خالق مخلوق نما ہوں
- ہر دم آتے ہیں بھرے دیدۂ گریاں تجھ بن
- لینے لگے جو چٹکی یک بار بیٹھے بیٹھے
- تمہاری اور مری کج ادائیاں ہی رہیں
- سر اپنے کو تجھ پر فدا کر چکے ہم
- صحبت ہے ترے خیال کے ساتھ
- جو پری بھی روبرو ہو تو پری کو میں نہ دیکھوں
- نہ سمجھو تم کہ میں دیوانہ ویرانے میں رہتا ہوں
- خدا کی قسم پھر تو کیا خیر ہووے
- او میاں بانکے ہے کہاں کی چال
- ظلمات شب ہجر کی آفات ہے اور تو
- کب خوں میں بھرا دامن قاتل نہیں معلوم
- نظر کیا آئے ذات حق کسی کو
- رحمت تری اے ناقہ کش محمل حاجی
- غیر کے گھر تو نہ رہ رات کو مہمان کہیں
- نہ پیارے اوپر اوپر مال ہر صبح مسا چکھو
- دل کے نگر میں چار طرف جب غم کی دہائی بیٹھ گئی
- کیا میں جاتا ہوں صنم چھٹ ترے در اور کہیں
- جوں ہی زنجیر کے پاس آئے پاؤں
- کہیں مغز اس کے میں صبح دم تری بوئے زلف رسا گئی
- یہ جو اپنے ہاتھ میں دامن سنبھالے جاتے ہیں
- تصور تیری صورت کا مجھے ہر شب ستاتا ہے
- وہ در تلک آوے نہ کبھی بات کی ٹھہرے
- نے شہریوں میں ہیں نہ بیابانیوں میں ہم
- دل میں مرغان چمن کے تو گماں اور ہی ہے
- کیا کھینچے ہے خود کو دور اللہ
- دیکھ کر اک جلوے کو تیرے گر ہی پڑا بے خود ہو موسیٰ
![]() |
Works by this author published before January 1, 1928 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |