سینہ ہے پرزے پرزے جائے رفو نہیں یاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سینہ ہے پرزے پرزے جائے رفو نہیں یاں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

سینہ ہے پرزے پرزے جائے رفو نہیں یاں
ٹانکے لگاویں کس کو دل کی تو بو نہیں یاں

ساقی ہے سرو و گل ہے مطرب ہے اور ترانہ
افسوس اک یہی ہے ایسے میں تو نہیں یاں

ہر چند تو ہمیشہ پیش نظر ہے اس پر
چھٹ تیری جستجو کے کچھ جستجو نہیں یاں

مجلس سے اپنی گل کو بھجوا دے پھر چمن میں
کس واسطے کہ اس کا وہ رنگ و بو نہیں یاں

حیران ہوں کہ کیجے کس سے سراغ عشرت
ماتم کدہ ہے عالم جز ہائے و ہو نہیں یاں

جو آرزو دلوں میں مضمر ہے صاحبوں کے
ہے آرزو تو لیکن وہ آرزو نہیں یاں

آئے تھے ہم چمن میں سن کر تری خبر کو
پھر کیا کریں گے رہ کر ظالم جو تو نہیں یاں

اہل سخن کا یارب کیوں محتسب ہے دشمن
کلک و دوات ہے کچھ جام و سبو نہیں یاں

قربانیان الفت سب سر کٹے پڑے ہیں
شمشیر کے حوالے کس کا گلو نہیں یاں

مجلس میں تیری ٹھہرے کیا مصحفیؔ کہ ناداں
غیر از ابے تبے تو کچھ گفتگو نہیں یاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse