دل چرانا یہ کام ہے تیرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل چرانا یہ کام ہے تیرا
by غلام علی ہمدانی مصحفی

دل چرانا یہ کام ہے تیرا
لے گیا ہے تو نام ہے تیرا

ہے قیامت بپا کہ جلوے میں
قامت خوش خرام ہے تیرا

جس نے عالم کیا ہے زیر و زبر
یہ خط مشک فام ہے تیرا

دید کرنے کو چاہئیں آنکھیں
ہر طرف جلوہ عام ہے تیرا

کس کا یہ خوں کیے تو آتا ہے
دامن افشاں تمام ہے تیرا

ہو نہ ہو تو ہماری مجلس میں
تذکرہ صبح و شام ہے تیرا

تیغ ابرو ہمیں بھی دے اک زخم
سر پہ عالم کے دام ہے تیرا

تو جو کہتا ہے مصحفیؔ ادھر آ
مصحفیؔ کیا غلام ہے تیرا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.