نصیبوں سے کوئی گر مل گیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نصیبوں سے کوئی گر مل گیا ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

نصیبوں سے کوئی گر مل گیا ہے
تو پہلے اس پہ اپنا دل گیا ہے

کرے گا یاد کیا قاتل کو اپنے
تڑپتا یاں سے جو بسمل گیا ہے

لگے ہیں زخم کس کی تیغ کے یہ
کہ جیسے پھوٹ سینہ کھل گیا ہے

خدا کے واسطے اس کو نہ لاؤ
ابھی تو یاں سے وہ قاتل گیا ہے

کوئی مجنوں سے ٹک جھوٹے ہی کہہ دے
کہ لیلیٰ کا ابھی محمل گیا ہے

اگر ٹک کی ہے ہم نے جنبش اس کو
پہاڑ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے

کوئی اے مصحفیؔ اس سے یہ کہہ دے
دعا دیتا تجھے سائل گیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse