آئے ہو تو یہ حجاب کیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آئے ہو تو یہ حجاب کیا ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

آئے ہو تو یہ حجاب کیا ہے
منہ کھول دو نقاب کیا ہے

سینے میں ٹھہرتا ہی نہیں دل
یارب اسے اضطراب کیا ہے

کل تیغ نکال مجھ سے بولا
تو دیکھ تو اس کی آب کیا ہے

معلوم نہیں کہ اپنا دیواں
ہے مرثیہ یا کتاب کیا ہے

جو مر گئے مارے لطف ہی کے
پھر ان پہ میاں عتاب کیا ہے

اوروں سے تو ہے یہ بے حجابی
مجھ سے ہی تجھے حجاب کیا ہے

اے مصحفیؔ اٹھ یہ دھوپ آئی
اتنا بھی دوانے خواب کیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse