در تلک جانے کی ہے اس کے مناہی ہم کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
در تلک جانے کی ہے اس کے مناہی ہم کو
by غلام علی ہمدانی مصحفی

در تلک جانے کی ہے اس کے مناہی ہم کو
اپنی بس اب نظر آتی ہے تباہی ہم کو

روز جوں توں کہ ہوا شام تو پھر بہتر عذاب
نظر آئی شب ہجراں کی سیاہی ہم کو

ہم تو جانے کا ارادہ نہیں کرتے لیکن
وہ کمر سوئے عدم کرتی ہے راہی ہم کو

کیوں ترے چاہ زنخداں کا نہ نظارہ کریں
جی سے بھاتا ہے بہت سبزۂ چاہی ہم کو

دام بر دوش ہی مخلوق کیا خالق نے
طاقت اڑنے کی نہ دی جوں پر ماہی ہم کو

پردہ پڑتا جو نہیں اس سے خوش اندامی پر
پیارا لگتا ہے ترا کرتۂ لاہی ہم کو

عمر بھر شعر کہے ہم نے پہ تو نے اے عشق
نہ تو حزنی ہی کیا اور نہ آہی ہم کو

مصحفیؔ علم لغت سے ہے جنہیں آگاہی
جانتے ہیں وہ ابو نصر فراہی ہم کو


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.