اس گوشۂ عزلت میں تنہائی ہے اور میں ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس گوشۂ عزلت میں تنہائی ہے اور میں ہوں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

اس گوشۂ عزلت میں تنہائی ہے اور میں ہوں
معشوق تصور سے یکجائی ہے اور میں ہوں

یا گھر سے قدم میرا باہر نہ نکلتا تھا
یا شہر کی گلیوں میں رسوائی ہے اور میں ہوں

جس دشت میں ناقے کا گزرا نہ قدم ہرگز
اس دشت میں مجنوں سا سودائی ہے اور میں ہوں

ناصح کی نہ میں مانوں ہم دم کی نہ کچھ سمجھوں
اس عشق و محبت میں خود آرائی ہے اور میں ہوں

ہر چند جنون عشق ہوتا ہے خرد دشمن
اے مصحفیؔ اس پر بھی دانائی ہے اور میں ہوں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.