نسیم صبح چمن سے ادھر نہیں آتی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نسیم صبح چمن سے ادھر نہیں آتی
by غلام علی ہمدانی مصحفی

نسیم صبح چمن سے ادھر نہیں آتی
ہزار حیف کہ گل کی خبر نہیں آتی

رکھے ہے آئینہ کیا منہ پہ میرے اے ہم دم
کہ زندگی مجھے اپنی نظر نہیں آتی

بھٹکتی پھرتی ہے لیلیٰ سوار ناقے پر
جدھر ہے وادئ مجنوں ادھر نہیں آتی

کمر ہی کو تری پروا نہیں ہے کچھ اس کی
وگرنہ جعد تو کب تا کمر نہیں آتی

تری شبیہ مرے سامنے کھڑی ہے میاں
حیا کے مارے ولے پیشتر نہیں آتی

ہوا ہوں آہ میں جس پر غرور پر عاشق
کنیز اس کی کبھی میرے گھر نہیں آتی

قلق سے ہوتی ہے کچھ دل کی میرے یہ حالت
کہ نیند رات کو دو دو پہر نہیں آتی

شب وصال کب آتی ہے میرے گھر اے چرخ
کہ اس کے پیچھے سے دوڑی سحر نہیں آتی

گیا ہے غم مرے نامے کو لے کے کچھ ایسا
کہ آج تک خبر نامہ بر نہیں آتی

خرام فتنۂ روز جزا بہ ایں شوخی
ترے خرام کے عہدے سے بر نہیں آتی

میں ترک عشق کو کہتا ہوں مصحفیؔ تجھ سے
یہ بات دھیان میں تیرے مگر نہیں آتی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse