آنکھیں ہیں جوش اشک سے پنگھٹ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنکھیں ہیں جوش اشک سے پنگھٹ
by غلام علی ہمدانی مصحفی

آنکھیں ہیں جوش اشک سے پنگھٹ
اشک پھرتے ہیں ان میں جیسے رہٹ

میں نہ سمجھا تھا خوب تیرے تئیں
ہے تو مطرب پسر بڑا نٹ کھٹ

پی گئے ہم صراحیٔ مے کو
دست ساقی سے لیتے ہی غٹ غٹ

تیرا تیر نگہ ہے وہ کافر
منہ سے اک دم جدا تو کر گھونگٹ

سمجھے تھے مار آپ دیکھی تھی
آئینے میں کسی کی زلف کی لٹ

جس کو کہتے ہیں عرصۂ ہستی
توسن عمر کی ہے اک سرپٹ

مصحفیؔ اس کے رخ پہ خط آیا
گئے وے دن گئی وہ رت ہی پلٹ

جم کے بیٹھے نہ تھا جہاں کوئی
رات دن اب رہے ہے واں جمگھٹ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse