کبھی تو بیٹھوں ہوں جا اور کبھی اٹھ آتا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کبھی تو بیٹھوں ہوں جا اور کبھی اٹھ آتا ہوں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

کبھی تو بیٹھوں ہوں جا اور کبھی اٹھ آتا ہوں
منوں ہوں آپ ہی پھر آپھی روٹھ جاتا ہوں

معاملہ تو ذرا دیکھیو تو چاہت کا
مجھے ستاوے ہے وہ اس کو میں ستاتا ہوں

رکا ہوا وہ مجھے دیکھ کر جو بولے ہے
تو بولتا نہیں میں اس سے سر ہلاتا ہوں

پر اتنے میں جو میں سوچوں ہوں یہ نہ رک جاوے
زباں پہ اپنی بھی اک آدھ حرف لاتا ہوں

کہے ہے دل یہ کہ ایسے سے دوستی ہے عبث
برائیوں کا جو اس کی خیال لاتا ہوں

یہ کہہ کے بیٹھ رہوں ہوں جو اپنے گھر میں ذرا
تو دل کہے ہے یہ گھبرا کے میں تو جاتا ہوں

جب اپنا حال یہ دیکھوں ہوں میں تو ہونا چار
جھپٹ کے پیچھے سے دل کے قدم اٹھاتا ہوں

بتا تو مصحفیؔ کیا تجھ کو ہو گیا کم بخت
کچھ ان دنوں ترا چہرہ تغیر پاتا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse