ادھر سے جھانکتے ہیں گہہ ادھر سے دیکھ لیتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ادھر سے جھانکتے ہیں گہہ ادھر سے دیکھ لیتے ہیں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

ادھر سے جھانکتے ہیں گہہ ادھر سے دیکھ لیتے ہیں
غرض ہم اس کی صورت سو ہنر سے دیکھ لیتے ہیں

کیا ہے بخت نے جس دن سے ہم کو اس کا ہم سایہ
ہم اس رشک پری کو اپنے گھر سے دیکھ لیتے ہیں

جو ہو جاتے ہیں دیوانے ترے اتنے نقابوں پر
خدا جانے کہ وہ تجھ کو کدھر سے دیکھ لیتے ہیں

ہمیں گریہ سے وہ فرصت کہاں جو خال و خط دیکھیں
مگر نقشہ ترا اس چشم تر سے دیکھ لیتے ہیں

ہمارے دیکھنے سے کیوں خفا ہوتا ہے اے ظالم
ترا لیتے ہیں کیا ٹک اک نظر سے دیکھ لیتے ہیں

ہمیں اس کو میں رہنے کا نہیں کچھ اور تو حاصل
پر اتنا ہے کہ گاہے چاک در سے دیکھ لیتے ہیں

لگیں ہیں دیکھنے جب مصحفیؔ ہم اس کے کوچے میں
ٹک اک پھر کر بھی رسوائی کے ڈر سے دیکھ لیتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse