ہم تو اس کوچے میں گھبرا کے چلے آتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم تو اس کوچے میں گھبرا کے چلے آتے ہیں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

ہم تو اس کوچے میں گھبرا کے چلے آتے ہیں
دو قدم جاتے ہیں پھر جا کے چلے آتے ہیں

ہم کو اے شرم ٹک اب اس کی طرف جانے دے
حال اپنا اسے دکھلا کے چلے آتے ہیں

دن کو زنہار ٹھہرتے نہیں ہم اس کو میں
رات کو ملنے کی ٹھہرا کے چلے آتے ہیں

وہ ادا کشتہ ٹھہرتا نہیں پھر مقتل میں
لاش کو جس کی وہ ٹھکرا کے چلے آتے ہیں

میں بھروسے ہی میں رہتا ہوں تری زلفوں میں
یار میرے مجھے پھنسوا کے چلے آتے ہیں

وہ جو ملتا نہیں ہم اس کی گلی میں دل کو
در و دیوار سے بہلا کے چلے آتے ہیں

جاتے ہیں کوچے میں ہم اس کے تو واں غیر کو دیکھ
پھر نہ آنے کی قسم کھا کے چلے آتے ہیں

قیدی مر جاتے ہیں جب آپ کبھی زنداں کے
قفل دروازے کو لگوا کے چلے آتے ہیں

چھٹتے ہیں جو اسیران قفس گلشن میں
کیا ہی پر شوق سے پھیلا کے چلے آتے ہیں

غیر جب وصل کا کرتا ہے سوال ان سے تو وے
کیسے محجوب ہو دم کھا کے چلے آتے ہیں

رہ روان سفر بادیۂ عشق اے وائے
قافلے راہ میں لٹوا کے چلے آتے ہیں

میں تو سمجھا تھا بجھاویں گے کچھ آنسو تف دل
یہ تو اور آگ کو بھڑکا کے چلے آتے ہیں

ساتھ میت کے مری وہ نہیں چلتے دو قدم
بس وہیں نعش کو اٹھوا کے چلے آتے ہیں

دل کی بیتابی سے جاتے تو ہیں ہم اس کو میں
لیک اس جانے سے پچھتا کے چلے آتے ہیں

بدرقہ گر نہیں احباب تو پھر کیوں پس مرگ
تا بہ منزل مجھے پہنچا کے چلے آتے ہیں

مصحفیؔ کے تئیں دیکھیں ہیں جو وہ کشتہ پڑا
پاس جاتے نہیں شرما کے چلے آتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse