مسلخ عشق میں کھنچتی ہے خوش اقبال کی کھال

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مسلخ عشق میں کھنچتی ہے خوش اقبال کی کھال
by غلام علی ہمدانی مصحفی

مسلخ عشق میں کھنچتی ہے خوش اقبال کی کھال
بھیڑ بکری سے ہے کم قدر بد اعمال کی کھال

جس کی بوسے کے تصور سے چھلے گال کی کھال
تاب کیا لاوے عرق پونچھتے رومال کی کھال

نقش اس کا بھی کیا دور فلک نے باطل
تھی جو کاوے کے علم سے بندھی اقبال کی کھال

نہیں قصاب اجل سے کوئی بے غم ہرگز
پوستیں چھینے یہ منعم کی تو کنگال کی کھال

تن دہی جب نہ کریں کام میں استاد کے یہ
قمچیوں سے نہ ادھیڑے وہ پھر اطفال کی کھال

بند رومی ہے سمور اس کے پہ کام آں روزوں
دیکھنے میں کبھی آئی نہ تھی اس جال کی کھال

بد گمانی نہ ہو کیوں تب کے گئے پر افزوں
دیکھ اکھڑے لب معشوق کے تبخال کی کھال

مالک الملک نصاریٰ ہوئے کلکتے کے
یہ تو نکلی عجب اک وضع کی جنجال کی کھال

جھریاں کیوں نہ پڑیں عمر فزوں میں منہ پر
تن پہ جب لائے شکن پیر کہن سال کی کھال

شمسؔ تبریز نے مردے کو کیا تھا زندہ
شرع نے کھینچی عبث ایسے خوش اعمال کی کھال

کام از بس کہ زمانے کا ہوا ہے برعکس
چور کھنچوائے ہے اس عہد میں کوتوال کی کھال

نفس گرم سے لیتا ہے وہ اکسیر بنا
دھونکنی دم کی ہے شاعر کے زر و مال کی کھال

اتنے بے کار نہیں جانور آبی بھی
دستانوں کے تو کام آتی ہے گھڑیال کی کھال

فکر میں موئے کمر کی ترے حیران رہے
وہی دقاق جو کھینچے ہے سدا بال کی کھال

اتنا مقدور مجھے دیجو تو اے مہدیٔ دیں
مارے کوڑوں کے اڑا دوں خر دجال کی کھال

داغ دل چھن گیا یوں سوزن مژگاں سے تری
جس طرح ہووے مشبک کسی غربال کی کھال

نہیں بے وجہ گرفتاریٔ درویش اس میں
آہو و شیر کی ہوتی ہے عجب حال کی کھال

جس کے ہر دانے سے اک قطرۂ خوں ٹپکے ہے
ہے منڈھی میان پہ قاتل کے عجب حال کی کھال

تن کو پیری میں ریاضت سے دباغی کر دوں
مصحفیؔ چرسے کا چرسا ہے یہ اور کھال کی کھال

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse