جو پری بھی روبرو ہو تو پری کو میں نہ دیکھوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جو پری بھی روبرو ہو تو پری کو میں نہ دیکھوں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

جو پری بھی روبرو ہو تو پری کو میں نہ دیکھوں
مری آنکھیں بند کر دو کہ کسی کو میں نہ دیکھوں

دل گرم خون الفت مرے بر میں رکھ دیا ہے
سوئے گل تو ملتفت ہوں جو کلی کو میں نہ دیکھوں

مرا دل لگا ہے جس سے مرا جی گیا ہے جس پر
مری کیوں کہ زندگی ہو جو اسی کو میں نہ دیکھوں

مری تجھ سے زندگی ہے تو مرا جگر ہے جی ہے
کسے دیکھ کر جیوں پھر جو تجھی کو میں نہ دیکھوں

مری کیوں کہ ہو تسلی تو ہی مصحفیؔ بتا پھر
دل شب بھی اس صنم کی جو گلی کو میں نہ دیکھوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse