ہمیں نت اسیر بلا چاہتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہمیں نت اسیر بلا چاہتا ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

ہمیں نت اسیر بلا چاہتا ہے
ہماری خوشی کب خدا چاہتا ہے

شب و روز رویا کریں خون آنکھیں
یہی تو وہ رنگ حنا چاہتا ہے

وہ کرتا ہے اپنے ہی جی میں برائی
کسی کا کوئی گر برا چاہتا ہے

دلا بیٹھ رہ رکھ کے دنداں جگر پر
توکل کا گر تو مزا چاہتا ہے

اسے آپ سے دھیان آنے کا تیرے
وہ گل تجھ کو باد صبا چاہتا ہے

مرے استخواں سے بھی ہے اس کو نفرت
مرے فاقہ کر کے ہما چاہتا ہے

نہیں خواہش اس کی کھلی ہم پہ اب تک
وہ کیا مانگتا ہے وہ کیا چاہتا ہے

مگر یہ کہ ان روزوں پھر مصحفیؔ کو
ترے غم میں سودا ہوا چاہتا ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.