اس قدر بھی تو مری جان نہ ترسایا کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس قدر بھی تو مری جان نہ ترسایا کر
by غلام علی ہمدانی مصحفی

اس قدر بھی تو مری جان نہ ترسایا کر
مل کے تنہا تو گلے سے کبھی لگ جایا کر

دیکھ کر ہم کو نہ پردے میں تو چھپ جایا کر
ہم تو اپنے ہیں میاں غیر سے شرمایا کر

یہ بری خو ہے دلا تجھ میں خدا کی سوگند
دیکھ اس بت کو تو حیران نہ رہ جایا کر

ہاتھ میرا بھی جو پہنچا تو میں سمجھوں گا خوب
یہ انگوٹھا تو کسی اور کو دکھلایا کر

گر تو آتا نہیں ہے عالم بیداری میں
خواب میں تو کبھی اے راحت جاں آیا کر

اے صبا اوروں کی تربت پہ گل افشانی چند
جانب گور غریباں بھی کبھی آیا کر

ہم بھی اے جان من اتنے تو نہیں ناکارہ
کبھی کچھ کام تو ہم کو بھی تو فرمایا کر

تجھ کو کھا جائے گا اے مصحفیؔ یہ غم اک روز
دل کے جانے کا تو اتنا بھی نہ غم کھایا کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse