یادگار گزشتگاں ہیں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یادگار گزشتگاں ہیں ہم
by غلام علی ہمدانی مصحفی

یادگار گزشتگاں ہیں ہم
خوب دیکھا تو پھر کہاں ہیں ہم

شمع کی طرح بزم گیتی میں
داغ بیٹھے ہیں اور رواں ہیں ہم

رہے جاتے ہیں پیچھے یاروں سے
گرد دنبال کارواں ہیں ہم

رکھ نہ خنجر کو ہاتھ سے قاتل
تیرے کشتوں میں نیم جاں ہیں ہم

آبیار سخن ہے اپنی زباں
لفظ و معنی کے باغباں ہیں ہم

تو ہی تو ہے جو خوب غور کریں
ایک دھوکا سا درمیاں ہیں ہم

دعوت تیغ کے تو قابل ہیں
گو کہ یک مشت استخواں ہیں ہم

رنگ رخ پر ہمارے، زردی سی
نظر آتی ہے، کیا خزاں ہیں ہم

گو کیا ہم کو سرد پیری نے
پر ابھی طبع میں جواں ہیں ہم

اور بھی ہم کو رہنے دے چندے
گو تری طبع پر گراں ہیں ہم

باغباں اب چمن سے جاویں کہاں
بلبل کہنہ آشیاں ہیں ہم

مصحفیؔ شاعری رہی ہے کہاں
اب تو مجلس کے روضہ خواں ہیں ہم


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.