مشتاق ہی دل برسوں اس غنچہ دہن کا تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مشتاق ہی دل برسوں اس غنچہ دہن کا تھا
by غلام علی ہمدانی مصحفی

مشتاق ہی دل برسوں اس غنچہ دہن کا تھا
یارو مرے اور اس کے کب ربط سخن کا تھا

واں بالوں میں وہ مکھڑا جاتا تھا چھپا کم کم
یاں حشر مرے دل پر اک چاند گہن کا تھا

تھے خط شکستہ کی رخسار ترے تعلیم
از بس کہ ہجوم ان پر زلفوں کی شکن کا تھا

پروانے کی ہمت کے صدقے میں کہ دی شب وہ
اس بے پر و بالی پر قربان لگن کا تھا

آخر کو ہمیں ظالم پامال کیا تو نے
اندیشہ ہمیں دل میں تیرے ہی چلن کا تھا

میں اس قد و عارض کو کر یاد بہت رویا
مذکور گلستاں میں کچھ سرو و سمن کا تھا

جوں اشک سر مژگاں ہم پھر نہ نظر آئے
از بس کہ یہاں وقفہ اک چشم زدن کا تھا

دو پھول کوئی رکھ کر گزرا تھا جو کل یاں سے
تربت پہ مری بلوا مرغان چمن کا تھا

جس مرغ چمن کو میں دیکھا تو چمن میں بھی
حسرت کش نظارہ اس رشک چمن کا تھا

شب دیکھ مہ تاباں تھا مصحفیؔ تو حیراں
کیا اس میں بھی کچھ نقشہ اس سیم بدن کا تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse