یارب آباد ہوویں گھر سب کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یارب آباد ہوویں گھر سب کے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

یارب آباد ہوویں گھر سب کے
پھریں خط لے کے نامہ بر سب کے

کس کی مژگان ہیں کہ سینوں میں
یک بیک چھن گئے جگر سب کے

شب کی شب گل چمن کے ہیں مہمان
برگ جھڑ جائیں گے سحر سب کے

ایک عاشق پہ التفات نہ کر
حال پر رکھ میاں نظر سب کے

دیجو پیغام ہی مرا قاصد
لے چلا ہے تو خط اگر سب کے

جتنے ہیں گرد و پیش ہمسائے
گھر ڈبوئے گی چشم تر سب کے

ہم رہے پیچھے وائے گرم رواں
پہنچے منزل پہ پیشتر سب کے

میرے سوز جنوں کی دہشت سے
بند رہتے ہیں دن کو گھر سب کے

دل ہی اپنا ہے چینیٔ مو دار
حصے آئے نہ وہ کمر سب کے

ہاتھ اٹھتے تھے پیٹنے کے لیے
تیرے کشتے کی لاش پر سب کے

گر یہی ہے رسائی صیاد
ایک دن باندھے گا یہ پر سب کے

کیا دکھاوے صفائی طبع مری
جس جگہ ہوں خذف گہر سب کے

دوستی کر دلا نہ ان سے کہ ہیں
دشمن جاں یہ سیم بر سب کے

تھے جو سلطان بحر و بر آخر
گئے برباد تاج زر سب کے

وائے دنیا کہ رلتے پھرتے ہیں
خاک میں کاسہ ہائے سر سب کے

مصحفیؔ یہ جو ہیں امیر و فقیر
دل میں ہے موت کا خطر سب کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse