منہ میں جس کے تو شب وصل زباں دیتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
منہ میں جس کے تو شب وصل زباں دیتا ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

منہ میں جس کے تو شب وصل زباں دیتا ہے
صبح تک مارے مزے ہی کے وہ جاں دیتا ہے

بوسہ دینے کو تو کہتا ہے وہ مجھ سے لیکن
میں جو چاہوں کہ ابھی دے سو کہاں دیتا ہے

ناقہ گر گم نہ کرے راہ تو خود ریگ رواں
استخواں ریزۂ مجنوں کا نشاں دیتا ہے

صبح خیزوں کو بھی موت آ گئی کیا ہجر کی شب
مرغ بولے ہے نہ ملا ہی اذاں دیتا ہے

کچھ تو جگہ ہے مری دل میں بھی اس کے ورنہ
غیروں کو یوں کوئی پہلو میں مکاں دیتا ہے

دل و جاں مجھ سے وہ مانگے ہے بہائے بوسہ
ہے تو سودا بہت اچھا پہ گراں دیتا ہے

یہ دم سرد ہے کس کا کہ ہر اک نخل بہ باغ
یاد بے برگی ایام خزاں دیتا ہے

پھول جھڑتے ہیں منہ اس کے سے ہزاروں مجھ کو
گالیاں گر کبھی وہ غنچہ دہاں دیتا ہے

جان دروازے پر اس کے ہی میں جا کر دوں گا
اضطراب دل اگر مجھ کو اماں دیتا ہے

مصحفیؔ میں ہدف ناز ہوں اور واں غمزہ
دم بدم دست تغافل میں کماں دیتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse