بات کو میری الگ ہو کے نہ شرماؤ سنو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بات کو میری الگ ہو کے نہ شرماؤ سنو
by غلام علی ہمدانی مصحفی

بات کو میری الگ ہو کے نہ شرماؤ سنو
کچھ کہا چاہوں ہوں میں تم سے ادھر آؤ سنو

میں تو جانے کا نہیں رو بہ رو اس کے یارو
کچھ وہ گر تم سے کہے ہے تو تمہیں جاؤ سنو

چھیڑنے کو مرے گر آپ کا جی چاہے ہے
بے ادب ہوں میں مرے حق میں جو فرماؤ سنو

بات بھی مانو کسی کی کوئی یہ بھی ضد ہے
اپنے عاشق کے تئیں اتنا نہ ترساؤ سنو

گل صنوبر کا اگر قصہ ہے تم پاس میاں
پڑھنے والا بھی تو موجود ہوں میں لاؤ سنو

اے دل و دیدہ مآل اس کا برا ہی سمجھو
دیکھ کر اس کے تئیں اتنا نہ للچاؤ سنو

مصحفیؔ بات تو کہنے دو ذرا قاصد کو
پہلے ہی حرف میں تم اتنا نہ گھبراؤ سنو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse