یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی
by غلام علی ہمدانی مصحفی

یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی
کسو سے ہمیں یاں لڑا کر رہیں گی

اگر یہ نگاہیں ہیں کم بخت اپنی
تو کچھ ہم کو تہمت لگا کر رہیں گی

یہ سفاکیاں ہیں تو جوں مرغ بسمل
ہمیں خاک و خوں میں ملا کر رہیں گی

کیا ہم نے معلوم نظروں سے تیری
کہ نظریں تری ہم کو کھا کر رہیں گی

یہ آئیں ہیں تو ایک دن آسماں کو
جلا کر کھپا کر اڑا کر رہیں گی

اگر گردشیں آسماں کی یہی ہیں
تو ہم کو بھی گردش میں لا کر رہیں گی

یہ آنکھیں ہیں تو ایک دن مصحفیؔ کو
نگاہوں کے اندر فنا کر رہیں گی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse