شب ہم کو جو اس کی دھن رہی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب ہم کو جو اس کی دھن رہی ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

شب ہم کو جو اس کی دھن رہی ہے
کیا جی میں ادھیڑ بن رہی ہے

مجنوں سے کہو کہ ماں کے لیلیٰ
خاطر تری طعنے سن رہی ہے

پروانہ تو جل چکا ولے شمع
سر اپنا ہنوز دھن رہی ہے

پہلو سے اٹھا مرے نہ غبغب
یہ پوٹلی درد چن رہی ہے

یہ آہ پہ لخت دل جلے ہیں
یا سیخ کباب بھن رہی ہے

رکھوں نہ عزیز داغ دل کو
پاس اپنے یہی تو ہن رہی ہے

اے مینہ نہ برس کہ مصحفیؔ کی
چھت گھر کی تمام گھن رہی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse