ہر چند امردوں میں ہے اک راہ کا مزا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر چند امردوں میں ہے اک راہ کا مزا
by غلام علی ہمدانی مصحفی

ہر چند امردوں میں ہے اک راہ کا مزا
غیر از نسا ولے نہ ملا چاہ کا مزا

خطرے سے اس کے کر نہیں سکتا میں آہ بھی
لیتا ہوں جی ہی جی میں سدا آہ کا مزا

اپنی تو عمر روز سیہ میں گزر گئی
دیکھا کبھی نہ ہم نے شب ماہ کا مزا

باللہ کہہ کے اس نے قسم کھائی تھی کہیں
واللہ بھولتا نہیں باللہ کا مزا

بوسے کے جو سوال پہ اس نے کہا تھا واہ
اب تک پھرے ہے دل میں وہی واہ کا مزا

لذت کو اس کے سمجھیں ہیں کیا صاحب ورع
کوئی پوچھے اہل فسق سے تو باہ کا مزا

کیا وہ بھی دن تھے خوب کہ لوٹیں تھے مصحفیؔ
ہم بھی نظارۂ گہہ و بے گاہ کا مزا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.