گر ابر گھرا ہوا کھڑا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گر ابر گھرا ہوا کھڑا ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

گر ابر گھرا ہوا کھڑا ہے
آنسو بھی تلا ہوا کھڑا ہے

حیران ہے کس کا جو سمندر
مدت سے رکا ہوا کھڑا ہے

ہے موسم گل چمن میں ہر نخل
پھولوں سے لدا ہوا کھڑا ہے

شمشاد برابر اس کے قد کے
دہشت سے بچا ہوا کھڑا ہے

ہے چاک کسی کا جیب و داماں
کوئی خستہ لٹا ہوا کھڑا ہے

تو آ کے تو دیکھ در پہ تیرے
کیا سانگ بنا ہوا کھڑا ہے

خلوت ہو کبھو تو یوں کہے وہ
کوئی در سے لگا ہوا کھڑا ہے

میں خیر ہے گر کہوں تو بولے
وہ دیکھ چھپا ہوا کھڑا ہے

خونیں کفن شہید الفت
دولہا سا بنا ہوا کھڑا ہے

تیرا ہی ہے انتظار اس کو
ناقہ تو کسا ہوا کھڑا ہے

اے جان نکل کہ مصحفیؔ کا
اسباب لدا ہوا کھڑا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse