کھڑا نہ سن کے صدا میری ایک یار رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کھڑا نہ سن کے صدا میری ایک یار رہا
by غلام علی ہمدانی مصحفی

کھڑا نہ سن کے صدا میری ایک یار رہا
میں رہروان عدم کو بہت پکار رہا

قفس سے چھوڑے ہے اب مجھ کو کیا تو اے صیاد
چمن کے بیچ کہاں موسم بہار رہا

پس از وفات بھی اپنی ہوئیں نہ آنکھیں بند
زبس کہ تیرے ہی آنے کا انتظار رہا

خدا کے واسطے اب اس سے ہاتھ اٹھا کہ مرے
جگر میں نم نہیں اے چشم اشکبار رہا

ہوا تو غیر سے جب ہمکنار میرے ساتھ
کہاں وہ وعدہ رہا اور کہاں قرار رہا

کروں جو چاک گریباں کو اپنے ہوں مجبور
کہ میرے ہاتھ میں میرا نہ اختیار رہا

نہ سیر لالہ و گل ہم کو کچھ نظر آئی
کہ نوک ہر مژہ پر یاں دل فگار رہا

گلی میں اس کی گئے اور وہاں سے پھر آئے
تمام عمر یہی اپنا کاروبار رہا

غزل اک اور بھی اے مصحفیؔ سنا دے تو
کوئی کہے نہ کہ بندہ امیدوار رہا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.