چکھی نہ جس نے کبھی لذت سنان نگاہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چکھی نہ جس نے کبھی لذت سنان نگاہ
by غلام علی ہمدانی مصحفی

چکھی نہ جس نے کبھی لذت سنان نگاہ
مزہ دے پھر اسے کیا تیغ خوں چکان نگاہ

جس انجمن میں کہ پڑتا نہ تھا گمان نگاہ
پڑا ہے ٹوٹ دم رقص آسمان نگاہ

بلا سے اس سے ہی روز سیہ کا حال کہوں
کہ میل سرمہ ہے اس کے مزاج دان نگاہ

دھنک سے سرمے کی چلہ ہے تا بہ گوشۂ چشم
کوئی ہے صید جو پھر زہ ہوئی کمان نگاہ

بری ہے واجب و ممکن کی قید سے وہ حسن
نہ درمیانۂ مردم نہ درمیان نگاہ

ہوا تھا مستی کی مجلس میں شب گزر اپنا
کیا نظارۂ محویت جہان نگاہ

وہ آسماں کی طرف دیکھے گر اٹھا کر آنکھ
گرے زمین پہ عیسیٰ بھی کھا سنان نگاہ

نہ تاب نور تجلی کی لا سکا موسیٰ
فروغ حسن ہوا باعث زیان نگاہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse