پردہ اٹھا کے مہر کو رخ کی جھلک دکھا کہ یوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پردہ اٹھا کے مہر کو رخ کی جھلک دکھا کہ یوں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

پردہ اٹھا کے مہر کو رخ کی جھلک دکھا کہ یوں
باغ میں جا کے سرو کو قد کی لچک دکھا کہ یوں

آتش گل چمن کے بیچ جب ہمہ سو ہو شعلہ زن
اپنے لباس سرخ کی اس کو بھڑک دکھا کہ یوں

جو کوئی پوچھے جان من شوخی و جلوہ کس طرح
لمعۂ برق کی طرح ایک جھمک دکھا کہ یوں

شیشے کے بیچ دخت رز کرتی ہے شوخ چشمیاں
تو بھی ٹک اپنی چشم کی اس کو بھڑک دکھا کہ یوں

نظریں ملاوے گر کوئی تجھ سے کبھی تو جان من
اس کے تئیں تو دور سے آنکھیں تنک دکھا کہ یوں

کبک و تدرو گر کریں آگے ترے خرام ناز
اپنے خرام ناز کی ان کو لٹک دکھا کہ یوں

راتوں کو تجھ سے جاگنا گر کوئی پوچھے مصحفیؔ
چشم ستارہ باز ہیں اس کو فلک دکھا کہ یوں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.