تو دیکھے تو اک نظر بہت ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تو دیکھے تو اک نظر بہت ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

تو دیکھے تو اک نظر بہت ہے
الفت تری اس قدر بہت ہے

اے دل تو نہ کر ہماری خصمی
بس اک دل کینہ ور بہت ہے

ٹک اور بھی صبر کر کہ مجھ کو
لکھنا ابھی نامہ بر بہت ہے

ہم آبلہ بن رہے ہیں ہم کو
اک جنبش نیشتر بہت ہے

شیشے میں ترے شراب ساقی
ٹک ہم کو بھی دے اگر بہت ہے

اس رنگ سے اپنے گھر نہ جانا
دامن ترا خوں میں تر بہت ہے

افسانۂ عشق کس سے کہیے
اس بات میں درد سر بہت ہے

مجھ کو نہیں آہ کا بھروسہ
یعنی کہ یہ بے اثر بہت ہے

اس دل کی تو تو خبر رکھا کر
یہ آپ سے بے خبر بہت ہے

کیا بگڑی ہے آج مصحفیؔ سے
اس کوچے میں شور و شر بہت ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse