کبھو تک کے در کو کھڑے رہے کبھو آہ بھر کے چلے گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کبھو تک کے در کو کھڑے رہے کبھو آہ بھر کے چلے گئے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

کبھو تک کے در کو کھڑے رہے کبھو آہ بھر کے چلے گئے
ترے کوچے میں جو ہم آئے بھی تو ٹھہر ٹھہر کے چلے گئے

گئے باغ میں کسی گل تلے تو وہاں بھی اپنا نہ جی لگا
لے برنگ غنچہ جمائیاں تجھے یاد کر کے چلے گئے

کہیں غش میں تھا میں پڑا ہوا سنو اور قہر کی بات تم
مجھے دیکھنے کو جو آئے وہ تو بگڑ سنور کے چلے گئے

کروں مو و زلف کا کیا بیاں کہ عجیب قصہ ہے درمیاں
یہ ادھر کو سینے پہ آ رہی وہ ادھر کمر کے چلے گئے

اب انیس ہے نہ جلیس ہے نہ رفیق ہے نہ شفیق ہے
ہم اکیلے گھر میں پڑے رہے سبھی لوگ گھر کے چلے گئے

یہ عجب زمانے کی رسم ہے کہ جنہوں پہ مرتے تھے ہم سدا
پس مرگ آ وہی خاک میں ہمیں آہ دھر کے چلے گئے

چڑھے کوٹھے پر تو تھے مصحفیؔ پہ نہ داؤ پر وہ مرے چڑھے
میں چڑھاؤں جب تلک آستیں اٹھے اور اتر کے چلے گئے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.