منہ چھپاؤ نہ تم نقاب میں جان

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
منہ چھپاؤ نہ تم نقاب میں جان
by غلام علی ہمدانی مصحفی

منہ چھپاؤ نہ تم نقاب میں جان
یوں ہی عاشق کی ہے عذاب میں جان

جوں سی چٹکی میں لے کے مل ڈالی
ہم سے عاشق کی ہے عذاب میں جان

خوبیٔ حسن نے تری نہ رکھی
باقی اک ذرہ شیخ و شاب میں جان

کس کی زلفوں کے پیچ و تاب سے ہے
رات دن میری پیچ و تاب میں جان

سخت مشتاق ہے تمہارا دل
منہ دکھاؤ کبھی تو خواب میں جان

ایک دن تم نے کی نہ بات کبھو
مر گئے ہم تو اس حجاب میں جان

نت ترے انتظار غسل سے ہے
بحر کے دیدۂ حباب میں جان

مہ نے اے شہسوار عرصۂ حسن
عاقبت دی تری رکاب میں جان

اس نے بھر کر نگاہ دیکھا تھا
نہیں اس دن سے آفتاب میں جان

سر آتش جو اشک ریزاں تھا
کسی عاشق کی تھی کباب میں جان

مصحفیؔ تھا ز بسکہ عاشق شعر
مرتے مرتے رہی کتاب میں جان


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.