مکھ پھاٹ منہ پہ کھائیں گے تلوار ہو سو ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مکھ پھاٹ منہ پہ کھائیں گے تلوار ہو سو ہو
by غلام علی ہمدانی مصحفی

مکھ پھاٹ منہ پہ کھائیں گے تلوار ہو سو ہو
دبنے کے بھی تو اس سے نہیں یار ہو سو ہو

جانا مجھے بھی اب طرف یار ہو سو ہو
یا بولے یا بتائے وہ دھتکار ہو سو ہو

صیاد کو تو خواب تغافل سے کام ہے
احوال طائران گرفتار ہو سو ہو

سودائی بن کے اس پہ مجھے ہاتھ ڈالنا
ہنگامہ اس میں جو سر بازار ہو سو ہو

جی پر یہی ٹھنی ہے تو آج اس کو چھیڑ کر
کھانی مجھے بھی گالیاں دو چار ہو سو ہو

گو اس میں ہاتھا پائی بھی ہو جاوے ڈر نہیں
لوں گا میں اس کا بوسۂ رخسار ہو سو ہو

مجھ کو بھی کاٹنی قفس اپنے کی تیلیاں
یا ٹوٹے یا بچے مری منقار ہو سو ہو

شکوہ کبھی نہ یار کا لاویں گے منہ پہ ہم
ہم پر جفائے چرخ ستم گار ہو سو ہو

اپنی شفا کو اپنے خدا پر تو چھوڑ دے
آخر تو موت ہے دل بیمار ہو سو ہو

مانی شبیہ یار پہ مت آپ کو مٹا
لوں گا بنا میں تجھ سے جو تیار ہو سو ہو

اے دل! تو سادہ رویوں کی بھپکی میں آ نہ جا
اک دن لپٹ کے چھین لے تلوار ہو سو ہو

سر پھوڑ کر کے جائیں گے اس کی گلی میں ہم
رنگیں گے خون سے در و دیوار ہو سو ہو

صنعاں کی طرح اک بت کافر کے عشق میں
کافر ہو باندھنا ہمیں زنار ہو سو ہو

لینی متاع حسن ہمیں اس میں تاجرو!
نقصان جان و مال دل زار ہو سو ہو

شوخی ہے تیری طبع میں شدت سے مصحفیؔ
لے بھاگ سر سے شیخ کے دستار ہو سو ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse