جانے دے ٹک چمن میں مجھے اے صبا سرک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جانے دے ٹک چمن میں مجھے اے صبا سرک
by غلام علی ہمدانی مصحفی

جانے دے ٹک چمن میں مجھے اے صبا سرک
کیوں چھیڑتی ہے تو مجھے نا آشنا سرک

جیسے اندھیری رات میں بجلی چمک گئی
اس رخ سے شب گئی جو وہ زلف دوتا سرک

آثار مرگ مجھ میں ہویدا ہوئے مگر
جب پاس سے گئے مرے سب آشنا سرک

کہتا ہے وقت نزع مریض اس کا اس سے یوں
لگنے دے میری آنکھ تو اس دم ذرا سرک

میت سے میری گزرے ہے جس دم وہ بعد قتل
لاشہ کہے ہے خون سے دامن بچا سرک

پوروں پہ ڈورے باندھے ہیں اس پر شعور نے
تا اس کے فندقوں کی نہ جاوے حنا سرک

شب اختلاط سے وہ مرے کیا خفا ہوا
حد سے گئی زیادہ جو انگشت پا سرک

دھڑکے ہے بے طرح سے یہ پہلو میں رات دن
ڈرتا ہوں زخم دل کی نہ جاوے دوا سرک

کرنے دے میرے خون کو آرام خاک میں
اے شور حشر اس کو ابھی مت جگا سرک

یہ کیا غضب ہوا کہ نہ خنجر لگا نہ تیر
پہلو سے آپھی آپ مرا دل گیا سرک

خواب عدم سے میں ابھی چونکا ہوں دور ہو
اے صبح غم نہ اپنا مجھے منہ دکھا سرک

پیچھے مرے پڑا ہے تو کیوں گھر کی راہ لے
رسوا کرے گا کیا مجھے بہر خدا سرک

کیا بے حیا ہے جو نہیں ٹلتا تو مصحفیؔ
سو بار میں نے تجھ کو دوانے کہا سرک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse