وہی راتیں آئیں وہی زاریاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہی راتیں آئیں وہی زاریاں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

وہی راتیں آئیں وہی زاریاں
وہی پھر سحر تک کی بیداریاں

پری حور انساں کسی میں نہیں
جو دیکھی ہیں تجھ میں ادا داریاں

میں کافر ہوں پر دیکھ سکتا نہیں
کمر سے تری ربط زناریاں

نہ تھے داغ سینے کے اتنے گھنے
یہ ہیں دست قدرت کی گل کاریاں

ہم اک روز جی سے گزر جائیں گے
رہیں یوں ہی گر نت کی بے زاریاں

بہاریں کہاں ابر گلنار کی
کہاں میری مژگاں کی خوں باریاں

نہ سجدوں سے حاصل ہوا وصل یار
میں کعبے میں بھی ٹکریں ماریاں

مواقیس جس دم تو ثابت ہوئیں
سوا عشق کے کتنی بیماریاں

تو کیسی بلا میں پھنسا مصحفیؔ
ہوئیں کیا دوانے وہ ہشیاریاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse