زلف اگر دل کو پھنسا رکھتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
زلف اگر دل کو پھنسا رکھتی ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

زلف اگر دل کو پھنسا رکھتی ہے
آنکھ پردوں میں چھپا رکھتی ہے

ساتھ فہمیدگی گر ہووے تو پھر
بت پرستی بھی مزا رکھتی ہے

چہچہا رنگ مرے خون کا سا
ترے پانو کی حنا رکھتی ہے

آرسی ہوتی ہے سنمکھ تیرے
کچھ بھی آنکھوں میں حیا رکھتی ہے

کر دیا اس نے تو مجھ کو مدہوش
کس کی بو باد صبا رکھتی ہے

خاک دہلی کی ذرا سیر تو کر
کہ عجب آب و ہوا رکھتی ہے

ہائے تیکھی نگہ اس کافر کی
کیا کہوں میں جو ادا رکھتی ہے

تیری تصویر کو لے کر شیریں
اپنی چھاتی سے لگا رکھتی ہے

جب تلک آوے ہے تو پھر کے یہ چال
خاک میں مجھ کو ملا رکھتی ہے

آرسی سے نہ کرو کج نظری
اس کا تم سے وہ گلا رکھتی ہے

آہ میری ہے اثر سے ہم دوش
طالع زلف رسا رکھتی ہے

کیا ہے تقصیر جو ہم کو تجھ سے
گردش چرخ جدا رکھتی ہے

جھک پڑے ہے تیری پا بوسی کا
زلف بھی شوق بلا رکھتی ہے

گوشت اور پوست بھی گل جاتا ہے
جسم کے بیچ یہ کیا رکھتی ہے

مصحفیؔ نام ہے جس چیز کا چاہ
آدمی کو تو کھپا رکھتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse