نرمیٔ بالش پر ہم کو نہیں بھاتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نرمیٔ بالش پر ہم کو نہیں بھاتی ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

نرمیٔ بالش پر ہم کو نہیں بھاتی ہے
دم شمشیر پہ سر رکھیں تو نیند آتی ہے

کیا بری خو ہے مری بھی کہ بہ ایں دعویٔ عقل
میں بھی جاتا ہوں وہاں جان جہاں جاتی ہے

ناقبول اتنا ہوں مردے کو مرے بعد از مرگ
گور میں رکھیں تو مٹی بھی نہیں کھاتی ہے

حسن دیکھا ہے مگر ہند کی تصویریں کا
لیلیٰ بازار میں شکل اپنی جو بدلاتی ہے

نہ بچے گا کوئی ہرگز جو ہے رخ کی یہ صفا
نہ جئے گا کوئی مطلق جو یہ خوش گاتی ہے

خیر سلا سے نسیم سحری گھر جاوے
کر کے ذکر رخ گل کیوں مجھے پٹواتی ہے

ستم باد خزاں سے جو کوئی گل کی کلی
شاخ پر خشک ہو رہ جاتی ہے مرجھاتی ہے

بے کسی اپنی کا عالم مجھے آ جائے ہے یاد
کہ گریباں میں مرا سر یوں ہی جھکواتی ہے

مصحفیؔ کی کوئی امید تو بر لا یارب!
مدتوں سے یہ ترے در کا مناجاتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse