اس گلی میں جو ہم کو لائے قدم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس گلی میں جو ہم کو لائے قدم
by غلام علی ہمدانی مصحفی

اس گلی میں جو ہم کو لائے قدم
پاؤں پڑتے ہی لڑکھڑائے قدم

وائے قسمت میں رہ گیا پیچھے
اور رفیقوں نے جلد اٹھائے قدم

ہر قدم پر ہے لاش کشتے کی
اب کہاں اس گلی میں جائے قدم

تیرے کوچے سے آئے جو ان کے
اپنی آنکھوں سے میں لگائے قدم

اشک خونی سے میرے اس کو میں
نخل مرجاں ہیں نقش ہائے قدم

کاروان عدم کدھر کو گیا
مطلق آتی نہیں صدائے قدم

پیشتر منزل فنا سے نہیں
وادی ما و من میں جائے قدم

مصحفیؔ سالکان عشق کا ہے
ایسی منزل پہ انتہائے قدم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse