یارب مری اس بت سے ملاقات کہیں ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یارب مری اس بت سے ملاقات کہیں ہو
by غلام علی ہمدانی مصحفی

یارب مری اس بت سے ملاقات کہیں ہو
جس بات کو جی چاہے ہے وہ بات کہیں ہو

گر قرب سخن اس سے نہیں دور سے اے کاش
نظروں ہی میں ٹک حرف و حکایت کہیں ہو

پھرتا ہے حسینوں سے بہت آنکھیں لڑاتا
ڈرتا ہوں نہ دل مصدر آفات کہیں ہو

ہوتے ہوئے دشمن کے کہوں کیوں کے میں کچھ بات
مجلس سے تری دفعہ یہ بد ذات کہیں ہو

کاغذ پہ شب و روز تری کھینچوں ہوں تصویر
یعنی اسی صورت بسر اوقات کہیں ہو

ہے آج کی شب وعدۂ وصل اس کا مرے ساتھ
یارب کہ شتابی سے یہ دن رات کہیں ہو

دے ڈالو دل مصحفیؔ تم ورنہ مری جان
رسوائی ہے وہ تم پہ گر اثبات کہیں ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse