کیا میں جاتا ہوں صنم چھٹ ترے در اور کہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا میں جاتا ہوں صنم چھٹ ترے در اور کہیں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

کیا میں جاتا ہوں صنم چھٹ ترے در اور کہیں
لے قسم مجھ سے جو میرا ہو گزر اور کہیں

رفتگی کا ہے یہ عالم کہ ترے وقت خرام
پاؤں جاتے ہیں کہیں اور کمر اور کہیں

صبح پر وصل کی ٹھہری ہے شب ہجر ترے
جاویں جلدی سے گزر چار پہر اور کہیں

وادیٔ قیس میں جو لے گئی مجھ کو وحشت
دل کے بہلانے کی جا تھی نہ مگر اور کہیں

اس کے کوچے کو تو اے آہ غنیمت ہی سمجھ
سچ تو یہ ہے نہیں اتنا بھی اثر اور کہیں

ہم ہیں اور خوشۂ پرویں کا تماشا ہمہ شب
جا کے جھمکائیے یہ عقد گہر اور کہیں

لاابالی مری دیکھے ہے تو آئینہ کہاں
دل ترا اور کہیں ہے تو نظر اور کہیں

وعدۂ وصل دیا عید کی شب ہم کو صنم
اور تم جا کے ہوئے شیر و شکر اور کہیں

سامنے اس کے لگوں رونے تو جھنجھلا کے کہے
یاں سے لے جائیے یہ دیدۂ تر اور کہیں

چمن لالہ ستاں میں مجھے جانے دے صبا
چنگے ہوں گے نہ مرے داغ جگر اور کہیں

تفرقہ باد خزاں نے یہ چمن میں ڈالا
گل کہیں اور پڑا ہے تو ثمر اور کہیں

برگ و بر یہ ترے کوچے میں تو لاتا ہی نہیں
جا کے بٹھلاویں گے خواہش کا شجر اور کہیں

ایسے گھبرائے کہ حالت نہ رہی کچھ باقی
دیکھ آئے جو اسے شمس و قمر اور کہیں

گر میں بد نام ہوا اس کی گلی میں تو ہوا
یارو اب یاں سے نہ جاوے یہ خبر اور کہیں

مصحفیؔ میں ہوں وہ سرگشتہ کہ خورشید کی طرح
شام گر اور کہیں کی تو سحر اور کہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.