شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی
by غلام علی ہمدانی مصحفی

شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی
میں جب آنکھ کھولی بہت رات نکلی

مجھے گالیاں دے گیا وہ صریحاً
مرے منہ سے ہرگز نہ کچھ بات نکلی

ہوا وادیٔ قتل صحرائے محشر
مری نعش جب روز میقات نکلی

کمی کر گیا ناز پنہاں کا خنجر
نہ جاں تیرے بسمل کی ہیہات نکلی

تو اے مصحفیؔ اب تو گرم سخن ہو
شب آئیں دراز اور برسات نکلی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.