کب لگ سکے جفا کو اس کی وفائے عالم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کب لگ سکے جفا کو اس کی وفائے عالم
by غلام علی ہمدانی مصحفی

کب لگ سکے جفا کو اس کی وفائے عالم
ہے جس کا ہر کرشمہ صبر آزمائے عالم

محتاج پھر جہاں میں کوئی نظر نہ آتا
کرتا خدا جو مجھ کو حاجت روائے عالم

ہم کو تو کچھ نہ سوجھا آوے وہی دکھا دے
دیکھا ہو گر کسی نے کچھ یا ورائے عالم

عالم اگر ہے حادث تو مجھ کو تو بتا دے
کیوں اب تلک ہے وہ ہی نشو و نمائے عالم

کوئی کچھ ہی سمجھے اس کو پر اپنی آنکھ میں تو
ساتھ اس حدوث کے ہے ثابت بقائے عالم

وہ بھی نظر میں اپنی اس وقت جلوہ گر ہے
عالم جو کچھ کہ ہوگا بعد از فنائے عالم

آنکھیں تو تجھ کو دی ہیں ٹک دیکھ تو سہی تو
ہے راست کس کے قد پر چسپاں قبائے عالم

عالم میں اور ہم میں اک طرفہ رفتگی ہے
عالم فدا ہے ہم پر ہم ہیں فدائے عالم

ہم ابتدا کی پوچھیں پھر بیٹھ کر حقیقت
ہم کو کوئی بتا دے گر انتہائے عالم

کیا لطف عاشقی کا اب رہ گیا ہماری
یاں آخر جوانی واں ابتدائے عالم

کس غنچہ لب کی مجھ کو یاد آ گئی ہے اس دم
جو تنگ ہو گیا ہے مجھ پر فضائے عالم

ایسے سے داد خواہی محشر میں بھی ستم ہے
ہر ایک غمزہ جس کا ہو خوں بہائے عالم

کب داد کو کسی کی پہنچا وہ روے دل کش
ہم نے تو اس کو پایا حسرت فزائے عالم

جب عالم حیا سے بیگانہ وہ نگہ تھی
پاتے تھے تب بھی اس کو ہم آشنائے عالم

ہیں مصحفیؔ ہم اب تو مانند حادثے کے
دیکھیں ٹلے ہے کس دن سر سے بلائے عالم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse