تجھ بن تو کبھی گل کے تئیں بو نہ کروں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تجھ بن تو کبھی گل کے تئیں بو نہ کروں میں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

تجھ بن تو کبھی گل کے تئیں بو نہ کروں میں
مر جاؤں پہ گلشن کی طرف رو نہ کروں میں

گر جعد کو سنبل کی صبا بیچنے لاوے
خاطر سے تری قیمت یک مو نہ کروں میں

پلے میں ترے حسن کے گو ہو وہ گراں تر
یوسف کو ترا سنگ ترازو نہ کروں میں

یوں دل کو گرفتار رکھوں صید الم میں
پر اور کا صید خم گیسو نہ کروں میں

گر حور و پری دل کو لبھاوے مرے آ کر
واللہ کہ اس پر کبھی جادو نہ کروں میں

گر مرثیہ خوانی پہ دل آوے کبھی میرا
تو ہووے تو داؤد کو بازو نہ کروں میں

ہوں بسکہ ہوا دار تری آتش غم کا
پھنک جائے جو سینہ تو کبھو ہو نہ کروں میں

یوں دیکھوں تو دیکھوں کسی خوش وضع کو لیکن
خواہش کی نظر بر رخ نیکو نہ کروں میں

بلبل کی طرح گل پہ نہ ہوں زمزمہ پرواز
قمری کی طرح سرو پہ کو کو نہ کروں میں

جب رات ہو زانو پہ رکھو اپنے سر اپنا
پر تکیۂ سر غیر کا زانو نہ کروں میں

محراب کے کعبے کا نمازی ہوں تو واں بھی
جز سجدۂ طاق خم ابرو نہ کروں میں

جب تک نہ کھلیں مجھ سے ترے حسن کے عقدے
ہرگز ہوس نافۂ آہو نہ کروں میں

ہم خوابہ اگر ہووے مری حور بہشتی
ایدھر سے ادھر کو کبھی پہلو نہ کروں میں

کوئی اور تو کب مجھ کو لبھا سکتا ہے لیکن
ڈرتا ہوں تصور سے ترے خو نہ کروں میں

اے مصحفیؔ ہے عہد کہ جب تک نہ وہ گل ہو
گلگشت گل و سیر لب جو نہ کروں میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse