معشوقۂ گل نقاب میں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
معشوقۂ گل نقاب میں ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

معشوقۂ گل نقاب میں ہے
محجوبہ ابھی حجاب میں ہے

مہندی نہ لگا کہ جان میری
ہاتھوں سے ترے عذاب میں ہے

تو ہے وہ بلا کہ ماہ و خورشید
زلفوں کی ترے رکاب میں ہے

ہر اک تجھے آپ سا کہے ہے
قضیہ مہ و آفتاب میں ہے

اللہ رے ترے پسینے کی بو
کب ایسی بھبھک گلاب میں ہے

اس زلف کا اینٹھنا تو دیکھو
بن چھیڑے ہی پیچ و تاب میں ہے

قہاری کی شان جب سے تیری
عالم کے اوپر عتاب میں ہے

دل کوہ کا ہو گیا ہے پانی
دریا سب اضطراب میں ہے

اٹھ مصحفیؔ آفتاب نکلا
اب تک تو دوانے خواب میں ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.