بلبلو باغباں کو کیوں چھیڑا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بلبلو باغباں کو کیوں چھیڑا
by غلام علی ہمدانی مصحفی

بلبلو باغباں کو کیوں چھیڑا
تم نے ساز فغاں کو کیوں چھیڑا

مجھ کو اس ترک سے یہ شکوہ ہے
دل پہ رکھ کر سناں کو کیوں چھیڑا

نہ بلا لائے مجھ سا دیوانہ
سنگسار جہاں کو کیوں چھیڑا

اے ہما! اور کھانے تھے مردے
میرے ہی استخواں کو کیوں چھیڑا

بہلہ نادم ہو جی میں کہتا ہے
میں نے اس مومیاں کو کیوں چھیڑا

پھر گیا مجھ سے جو مزاج اس کا
گردش آسماں کو کیوں چھیڑا

دور سے اس نے میری صورت دیکھ
توسن خوش عناں کو کیوں چھیڑا

داستاں اپنی مجھ کو کہنی تھی
قصۂ این و آں کو کیوں چھیڑا

قصہ خواں اور لاکھ قصے تھے
تو نے ذکر بتاں کو کیوں چھیڑا

جس سے کل مجھ کو آ گئی تھی غشی
پھر اسی داستاں کو کیوں چھیڑا

مصحفیؔ گھر کے گھر جلا دے گا
ایسے آتش زباں کو کیوں چھیڑا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse