جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے
ہم نے بھی اپنے دل میں کیا کیا خیال باندھے

ایسا شکوہ اس کی صورت میں ہے کہ ناگہ
آوے جو سامنے سے دست مجال باندھے

آنکھوں سے گر کرے وہ زلفوں کو ٹک اشارہ
آویں چلے ہزاروں وحشی غزال باندھے

عیسیٰ و خضر تک بھی پہنچے اجل کا مژدہ
تو تیغ اگر کمر پر بہر قتال باندھے

لالے کی شاخ ہرگز لہکے نہ پھر چمن میں
گر سر پہ سرخ چیرا وہ نونہال باندھے

لت عاشقی کی کوئی جائے ہے عاشقوں سے
گو بادشاہ ڈانڈے گو کوتوال باندھے

ہم کس طرح سے دیکھیں جب دے دے پیچ لڑ کے
چیرے کے پیچوں میں تو زلفوں کے بال باندھے

بندہ ہوں میں تو اس کی آنکھوں کی ساحری کا
تار نظر سے جس نے صاحب کمال باندھے

ہم ایک بوسے کے بھی ممنوں نہیں کسی کے
چاہے سو کوئی تہمت روز وصال باندھے

سوز دل اپنا اس کو کیا مصحفیؔ سناویں
آگو ہی وہ پھرے ہے کانوں سے شال باندھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse