وہ آرزو نہ رہی اور وہ مدعا نہ رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ آرزو نہ رہی اور وہ مدعا نہ رہا
by غلام علی ہمدانی مصحفی

وہ آرزو نہ رہی اور وہ مدعا نہ رہا
ہمارے آپ کے ہرگز وہ ماجرا نہ رہا

سر نیاز رہا زیر پائے یاد مدام
حنا کی طرح میں قدموں سے کب لگا نہ رہا

دل آشنائی کو چاہے کسی کی خاک مرا
کہ آشنا جو ہوا تھا وہ آشنا نہ رہا

ہمیشہ جس سے پہنچتا رہے تھا دل کو الم
ہزار شکر کہ وہ درد بے دوا نہ رہا

جب آپ ہم نے بتاں ترک آشنائی کی
کسی بھی طرح کا تم سے ہمیں گلا نہ رہا

گلوں کے چہروں پہ زردی سی پھر رہی ہے تمام
گئی بہار وہ موسم کا ابتدا نہ رہا

صفائے سینہ سے پھسلا نہ کب دل عاشق
کہ چاہ ناف میں وہ خوں گرفتہ جا نہ رہا

ہزار حرف زباں سوز درمیاں آئے
ہے سچ تو یہ کہ محبت میں وہ مزا نہ رہا

چمن کو چھوڑ ہم ایسے چلے گئے سوئے دشت
کہ نام کو بھی پھر اندیشۂ صبا نہ رہا

یہ کس کے چاہ زنخداں کی فکر میں ڈوبا
تمام رات جو زانو سے سر جدا نہ رہا

عجب نہ جان گر آ جائے سلطنت کو زوال
کسی کے سر پہ سدا سایۂ ہما نہ رہا

نشان مصحفیٔؔ خستہ پوچھتے کیا ہو
وہ خاک راہ تو اب مثل نقش پا نہ رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse