کیا دخل کسی سے مرض عشق شفا ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا دخل کسی سے مرض عشق شفا ہو
by غلام علی ہمدانی مصحفی

کیا دخل کسی سے مرض عشق شفا ہو
ممکن ہے کہ اس درد کی دنیا میں دوا ہو

بالوں کا گھرس رکھنا ہے پگڑی ہی میں بہتر
کیا فائدہ اک خلق گرفتار بلا ہو

مغرور نہ رہ ہستئ موہوم پہ غافل
یاں آنکھ جھپکتے ہی خدا جانیے کیا ہو

اے مشت غبار تن فرسودۂ عاشق
اس کو میں زمیں گیر ہے گیو اب تو ہوا ہو

گر چرخ پہ جاوے تو شفق ہووے مرا خوں
ور خاک میں پنہاں ہو تو واں رنگ حنا ہو

ہے صبح سے کچھ آج مرے دل کو بشاشت
اس کوچے سے قاصد تو نہ خط لے کے چلا ہو

کیا دور ہے گر روح مری بعد فنا بھی
پھرتی رہے کوچے میں ترے باد صبا ہو

پردہ میں اٹھاتا نہیں زنہار کسی کا
اس ڈر سے کہیں تو ہی نہ پردے میں چھپا ہو

ہے آئینے میں عکس ترا تیری ہی صورت
تو اس پہ فدا اور وہ تیرے پہ فدا ہو

چلتے ہی ترے بام پہ آیا ہے وہ کافر
کیوں اتنے قدم جلد اٹھاتا ہے کھڑا ہو

اے مصحفیؔ اس کوچے سے تو سر کو جھکائے
کیا جاوے ہے کم بخت ذرا رو بہ قفا ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse