بیٹھے بیٹھے جو ہم اے یار ہنسے اور روئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بیٹھے بیٹھے جو ہم اے یار ہنسے اور روئے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

بیٹھے بیٹھے جو ہم اے یار ہنسے اور روئے
آ گیا یاد تو اک بار ہنسے اور روئے

شعر تر پڑھنے سے یاروں میں ہمیں کیا حاصل
مگر اتنا ہے کہ دو چار ہنسے اور روئے

شادی و غم کی جو اٹھ جائے جہاں سے رہ و رسم
پھر تو کوئی بھی نہ زنہار ہنسے اور روئے

ناتوانی نے کیا اس کو تو نقش قالیں
کیا تری چشم کا بیمار ہنسے اور روئے

مصحفیؔ رات میں افسانۂ دل کہتا تھا
سن کے ہمسائے کئی بار ہنسے اور روئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse