کون اس باغ سے اے باد صبا جاتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کون اس باغ سے اے باد صبا جاتا ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

کون اس باغ سے اے باد صبا جاتا ہے
رنگ رخسار سے پھولوں کے اڑا جاتا ہے

شعلہ شمع میں گرمی یہ کہاں سے آئی
اس کی گرمی سے تو فانوس جلا جاتا ہے

دل کے دھڑکوں کا یہ عالم ہے کہ بے منت دست
پرزے ہو ہو کے گریبان اڑا جاتا ہے

ربط پہلے جو ترے یاد کبھی کرتا ہوں
بیٹھے بیٹھے مجھے افسوس سا آ جاتا ہے

پوچھتا کوئی نہیں کب سے ترے کوچے میں
دل کسی کا ہے کہ پامال ہوا جاتا ہے

گئے وے دن کہ تمنا ہمیں اک اشک کی تھی
اب تو ان آنکھوں سے دریا سا بہا جاتا ہے

شام کے وقت تو کوٹھے پہ جو آتا ہے کبھی
دیکھ کر تجھ کو یہ خورشید چھپا جاتا ہے

بے ادب کے تئیں مطلق نہیں صحبت کا شعور
شانہ کتنا تری زلفوں سے لگا جاتا ہے

یوں قدم رکھ نہ زمیں پر تری رفتار سے آہ
دل کسی کا ہے کہ ماٹی میں ملا جاتا ہے

مصحفیؔ عشق کی وادی میں گزر ہے کس کا
بھولا بھٹکا کوئی ایدھر کو بھی آ جاتا ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.