دلی ہوئی ہے ویراں سونے کھنڈر پڑے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دلی ہوئی ہے ویراں سونے کھنڈر پڑے ہیں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

دلی ہوئی ہے ویراں سونے کھنڈر پڑے ہیں
ویران ہیں محلے سنسان گھر پڑے ہیں

جب دیکھتا ہوں ان کو تب تا کمر پڑے ہیں
یہ بال میرے جی کے پیچھے مگر پڑے ہیں

عزت یہ پیادگی کی کم ہے کہ گھوڑے والے
گھوڑے سے دیکھتے ہی مجھ کو اتر پڑے ہیں

دیکھا تو اس چمن میں باد خزاں کے ہاتھوں
اکھڑے ہوئے زمیں سے کیا کیا شجر پڑے ہیں

قریات ہند کا اب یہ رنگ ہے کہ کوسوں
جاوے کوئی جدھر کو اجڑے نگر پڑے ہیں

رویا ہے اس چمن میں کون آ کے اے صبا جو
ہر نخل گل کے نیچے لخت جگر پڑے ہیں

بگڑا کیے ہیں ہم بھی اس نازنیں سے ہر دم
کام اپنے رفتہ رفتہ یوہیں سنور پڑے ہیں

ہیں جان و دل کے خواہاں کیا سر کے بال اس کے
جو کچھ ادھر پڑے ہیں اور کچھ ادھر پڑے ہیں

مقتل میں یہ تماشا اس کے نیا میں دیکھا
ایدھر کو دھڑ پڑے ہیں اودھر کو سر پڑے ہیں

بلبل کا باغباں سے کیا اب نشان پوچھوں
بیروں در چمن کے یک مشت پر پڑے ہیں

شبنم گلاب پاشی غنچے کی جلد اٹھا لا
گل بستر غشی پر سب بے خبر پڑے ہیں

اے مصحفیؔ میں ان کو اب چھوڑتا ہوں کوئی
وہ بعد مدتوں کے میری نظر پڑے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse